وزیراعظم نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس بجٹ کو آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سی چیزوں پر ٹیکس لگانا پڑے گا اس پر تاجر برادری کو اندازہ ہے کہ اس سے غریب کی قوت خرید اور کم ہوگی اور اس کا اثر ان کی گیکٹریوں اور ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر بھی پڑے گا -اسی لیے ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز بھی اضافی ٹیکس کیخلاف کھل کر بول پڑیں اور انھوں نے لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا –
کراچی، فیصل آباد اور سیالکوٹ کے چیمبر آف کامرس نے اپنے اجلاس اور مشترکہ پریس کانفرنس میں اینٹی ایکسپورٹ فیڈرل بجٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فائنل ٹیکس رجیم کے مجوزہ خاتمے اور دیگر اینٹی ایکسپورٹ ٹیکسیشن اقدامات ناقابل قبول ہیں جس کے تباہ کن اثرات کے نتیجے میں برآمدات میں کمی آئے گی اور اس کے باعث قیمتی زرمبادلہ کی کمائی میں بھی کمی ہوگی، قومی خزانے کے لیے محصولات بری طرح متاثر ہوں گی اور لاکھوں کی تعدادمیں شہری افرادی قوت بے روزگار ہو جائے گی۔ اگر اضافی ٹیکس کا بوجھ یکطرفہ طور پر عائد کیا گیا تو تمام برآمدی کاروبار و صنعتیں بند ہو جائیں گی۔حکومت بجٹ کو حتمی شکل دینے سے قبل مجوزہ ایکسپورٹ مخالف سخت اقدامات کو واپس لے۔ یہ مشترکہ اور متفقہ مطالبات ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ، ملبوسات، کپڑا، ڈینم، تولیہ، بیڈ ویئر، دستانے، چمڑا، ٹینری، قالین، کھیل، سرجیکل، چاول، پھل، سبزیاں اور فشریز سے وابستہ پاکستان کی تمام ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز نے کیے۔یاد رہے کہ انہی ٹیکسز کے خلاف دنیا بھر میں عوام اب سڑکوں پر آنے کی تیاری کررہی ہے جس کی تازہ مثال کینیا کے حالات ہیں جہاں عوام نے حکومت کے ٹیکسز کے خلاف اعلان بغاوت کررکھا ہے اور وہاں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں –