اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقاتوں کے عدالتی احکامات کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرفیصلہ محفوظ کرلیاہے دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ کہاکہ روزانہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں کیلئے بہت سی درخواستیں آتی ہیں،جیل حکام اگر ٹھیک سے کام کریں تو یہ درخواستیں یہاں نہیں آنی چاہئیں۔اڈیالہ جیل میں کتنے قیدی ہیں؟ ہزاروں تو ہوں گے،اڈیالہ میں اسلام آباد سے متعلقہ قیدیوں کی یہی درخواستیں آتی رہیں پھر ہم تو یہی کام کرتے رہیں گے،آرڈر میں لکھا گیا کہ سکین نہیں کریں گے تو وہ نہیں کریں گے،آپ بتائیں کہ اس آرڈرمیں قباحت کیا ہے؟انھوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روزدیے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سماعت کی،ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد، اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن،پی ٹی آئی کی جانب سے نیاز اللہ نیازی، شعیب شاہین و دیگر عدالت پیش ہوئے چیف کمشنرکے وکیل نے عدالت کوبتایاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے چیلنج کر رکھا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد کے وکیل سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایاچیف جسٹس نے کہاکہ کسی سے ملاقات میں کیا مسلہ ہے؟سرکاری وکیل نے کہاکہ پریزن رولز 1998 کے تحت ملاقاتوں کے حوالے سے واضح ہیں،نیازاللہ نیازی نے کہاکہ سنگل رکنی بینچ نے تین مختلف درخواستوں پر فیصلہ دیا ہے،چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی وکیل نیاز اللّٰہ نیازی کو معزز جج صاحبہ کا نام لینے سے روک دیا،سرکاری وکیل نے کہاکہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ پریزن رولز کی خلاف ورزی ہے، پریزن رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل مینوئل کی مطابق ہوتیں ہیں، جیل ملاقاتوں کے لئے رولز کے تحت مختلف اوقات کار مقرر کئے گئے ہیں، رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل نمائندہ کی نگرانی میں ہوگی، قانونی ٹیم کی ملاقات ہو یا کسی اور کی، اکیلے میں ملاقات کی اجازت نہیں،کسی بھی مجرم سے ملاقات جیل مینوئل کی مطابق ہوتی ہیں، اس پر عدالت نے کہاکہ آپ کو سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے کس حصے سے اعتراض ہے؟ وکیل نے کہاکہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ ہی جیل مینوئل اور پریزن رولز کے خلاف ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو جرمانہ عائد کریں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کو جرمانہ سے مسئلہ ہے؟ یہاں عمران احمد خان نیازی سے ملاقاتوں کے روزانہ کتنے درخواستیں آتیں، ہم اس معاملے کو روٹین نہیں بنارہے، مگر جن کو یہاں سے اجازت ملتی ہے ان کو بھی نہیں ملنے دیا جارہا ہے، اس دوران پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا کے روسٹرم پر بنا گاؤن کے کھڑے ہونے پر عدالت کی برہمی کااظہار کیااور کہاکہ آپ اس کیس میں نہیں ہے نہ ہی آپ ڈریسں میں ہے آپ بیٹھ جائیں، شوکت بسرانے کہاکہ میں کورٹ ڈریس میں ہوں میں ہائی کورٹ کا وکیل ہوں، باہر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کھڑے ہیں ان کو نہیں آنے دیا جارہا، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کھڑے ہیں تو کھڑا رہنے دیں، آپ بیٹھ جائیں ، عدالت نے تو چھ افراد کی ملاقاتوں کا حکم دیا ہے، سرکاری وکیل نے کہاکہ عدالت کے پاس جیل اتھارٹی کے پاس آرڈر پاس کرنے کا اختیار نہیں، جیل کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے، اس عدالت کا دائر اختیار نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم آپکی بات مان لیں تو اسلام آباد کا کیا ہوگا؟ اڈیالہ جیل صرف پنجاب کا نہیں بلکہ اسلام آباد کا بھی جیل ہے، اسلام آباد کے قیدی اڈیالہ جیل ہی ہوتے ہیں، عدالت نے سرکاری وکیل سے کہاکہ آپ رولز پڑھ لیجیے اور ہمیں بتائے کہ آپکا مسلہ کیا ہے؟ سرکاری وکیل نے کہاکہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ آرٹیکل 199 تجاوز ہے، وفاقی عدالت کا دائرہ اختیار تب ہوگا جہاں ٹرائل ہوا ہو-اس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا-