�سہیل وڑائچ نے آج ایک کالم لکھا جس میں انھوں نے نواز شریف کی واپسی اور آئندہ آنے والے دنوں میں سیاست کے رخ پر بات کی انھوں نے نواز شریف کو ایک مشورہ بھی دیا -سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پسِ پردہ سب کچھ طے ہو چکا ہے اسی گارنٹی کے بعد ہی نواز شریف واپس آ رہا ہے ان کا خیال ہے کہ معاملات صرف نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے۔ سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ نواز شریف عمر کے اس حصے میں کسی بھی قسم کا رسک لینے یا جیل جانے کو ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ 21 اکتوبر کو واپس آگیا تو وہ جیل نہیں جائے گا بلکہ اسے ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔
پنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتا ہے تو پھر الیکشن کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہوگی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیں گے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف جاری منتقمانہ پالیسیوں کا حصہ بنے گا ۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتقام لینا ڈیل کا حصہ ہے تو اُسے یہ نہیں کرنا چاہئے اُسے انتقام اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ ،انھوں نے شہباز حکومت کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے بھی بات کی ان کا کہنا تھا کہ میں 19 اگست 2022ء کو لندن میں نواز شریف سے ملا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ آپ 3بار وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں آپ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ نواز شریف نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا اور کہا عمران خان سیاستدان نہیں بلکہ وہ تو سیاست اور سیاست دانوں کے سرے سے ہی مخالف ہیں اب جبکہ وہ خود اپنی ہی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن یہی غلطی نون لیگ کا ووٹ بینک نگل گئی اگر نون لیگ انتقامی کاروائی کی بجائے نئے انتخابات کی جانب جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوسکتی تھی اور ملک بھی اس قدر بحران کا شکار نہ ہوتا –
