صدر کے سیکرٹری وقار احمد نے ایوان صدر کا چارج چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جانے کا فیصلہ کرلیا -آج سے 12 روز قبل صدر مملکت نے اپنے سیکریٹری کی کارکردگی پر عدم اعتماد کیا تھا -ان کا خیال تھا کہ انھوں نے بل سے متعلق جو حکم اپنے سکریٹری اور عملے کو دیا تھا اس پر انھوں نے عمل نہ کرکے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے -لیکن اس کے بعد ان کے سیکریٹری کی جانب سے بھی جواب آیا تھا جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا صدر مملکت نے انہیں تحریری احکامات ہی نہیں دیے تھے جس کی وجہ سے یہ سنگین مسئلہ پیدا ہوا –

 

صدر عارف علوی نے گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو وفاقی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وفاقی سیکرٹری حمیرا احمد کو ان کی جگہ دی جائے لیکن انہوں نے ایوان صدر کی خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا تھا ۔بعد ازاں کچھ دیگر وفاقی سیکرٹریوں کو ایوان صدر میں خدمات انجام دینے کو کہا گیا لیکن کسی بھی وفاقی سیکرٹری نے صدر مملکت کا سیکرٹری بننے پر رضامندی نہیں دی۔تاہم ان حالات میں تلخی کم ہونے کے بعد ارم بخاری جو ایوان صدر میں ایڈیشنل سیکرٹری تھیں ان کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہیں، وہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے ہیں۔
اس معاملے کا بہت منفی اثر بھی پڑا اور یہی وجہ ہے کہ نگران وزیراعظم نے اب تک صدر مملکت سے ملاقات نہیں کی- صدر جن کے پاس اپنی مقررہ مدت کے 8 دن باقی ہیں انہیں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ابھی تک حکومت کا کوئی ممتاز عہدیدار نہیں ملا۔ لیکن اسمبلیاں تحلیل ہو جانے کے بعد صدر مملکت اپنے عہدے پر اس وقت تک کام کرسکتے ہیں جب تک تمام قومی اور صوبائی کے ارکان اسمبلی پہنچ کر نئے صدر کا انتخاب نہیں کرتے -البتہ اگر صدر مملکت خود استعفیٰ دے دیتے ہیں تو سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی یہ عہدہ سنبھالیں گے مگر لگتا نہیں ہے کہ صدر مملکت اتنی آسانی سے اپنا عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی پارٹی کے لیے ان کا اس سیٹ پر رہنا بہت ضروری ہے –