آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت دائر مقدمات کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو اپنے بیٹوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دے دی۔ قاسم کے ابا جو سائفر کیس میں 05 اگست کو گرفتاری کے بعد سے 14 روزہ ریمانڈ پر اٹک کی جیل میں قید ہیں۔ البتہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی سزا معطل کر دی تھی جس کے بعد سے میڈیا پر ان کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑگیا اس کے بعد ان کو رہائی تو نہ ملی تاہم ان کو دی گئی سہولیات میں اضافے کا فیصلہ ضرور ہوگیا ۔مگر یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی ملزم کے لیے جیل میں عدالت لگی ہو –

 

 

پی ٹی آئی سربراہ نے اپنے وکلا عمیر نیازی اور شیراز احمد کے ذریعے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے سامنے درخواست دائر کی جس میں اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ خان نے استدعا کی کہ میں اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان سے ٹیلی فون یا واٹس ایپ پر بات کرنا چاہتا ہوں، جسے عدالت نے منظور کرلیا۔جج نے اٹک جیل حکام کو ہدایت کی کہ والد کے بیٹوں سے فون پر بات کرنے کا انتظام کیا جائے۔

اب اس پر مسلم لیگ نون کی جانب سے کپتان پر تنقید کی جارہی ہے کہ 2018 میں عمران خان کی حکومت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنی بیمار اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جو اس وقت لندن کے ایک اسپتال میں کینسر کے مرض سے لڑ رہی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جیل انتظامیہ عمران خان کو اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کروانے کی اجازت دیتی ہے یا یہ فیصلہ صرف عدالتی حکم تک ہی محدود رہے گا –