دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کے حجاب پہننے کو پسند نہیں کیا جاتا -ان ممالک کو خدشہ ہے کہ کسی نقاب کی آڑ میں کوئی شدت پسند عورت کا روپ دھار کر کسی قسم کی شرانگیزی کرسکتا ہے -انہیں یہ بھی خد شہ ہے کہ عبایا میں جرم کرنے والے شخص کی پہچان بھی بہت مشکل ہوتی ہے -تاہم مسلمانوں کے لیے اس پر پابندی کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ خواتین کے لیے نقاب کرنا حکم الہی ہے -تاہم اب فرانس نے بچیوں کے سر پر سکارف لینے پر پابندی عائید کردی گئی ہے –

 

یہ فیصلہ سرکاری عمارتوں اور سرکاری اسکولوں میں فرانس کے موجودہ اصول کا حصہ ہے فرانس میں اسکولوں میں سر پر اسکارف نہ پہننے کا فیصلہ 2004 سے نافذ ہالعمل ہے۔فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے وضاحت کی کہ عبایا کے بارے میں نیا اصول اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طلباء کے مذاہب کو کلاس روم میں دیکھنے سے آسانی سے پہچانا نہ جائے۔

ان کا خیال ہے کہ اسکول ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں تمام طلباء صرف اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر سکیں ۔ عبایا پہننے کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ دائیں بازو کی جماعتوں نے عبایہ پر پابندی کی حمایت کی ہے، جب کہ بائیں بازو کی جماعتیں مسلم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے بارے میں فکر مند ہیں وہ چاہتےہیں کہ بچیوں کو سکارف پہننے سے نہ روکا جائے ۔

وزیر کا کہنا تھا کہ عبایہ پہننے کو فرانس ایک مذہبی عمل سمجھتا ہے جو اسکولوں کے مذہبی اثر و رسوخ سے پاک ہونے کے خیال کو چیلنج کرتا ہے۔
فرانس میں 19ویں صدی سے بھی ایک طویل عرصے سے اسکولوں میں مذہبی نشانات دکھانے کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ یہ اصول اصل میں کسی ایک مذہب کو عوامی تعلیم پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، مسلم ہیڈ اسکارف اور یہودی کپا جیسی اشیاء کو شامل کرنے کے لیے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے، لیکن اب تک، عبایوں پر براہ راست پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فرانس میں رہنے والے مسلم لوگ اس فیصلے پر کس طرح ری ایکشن دیتے ہیں کیونکہ کافی عرصہ تک فرانس پہلے ہی فسادات کی زد میں رہا ہے اب اس قسم کا معاملہ ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرسکتا ہے –