کل عمران خان نے میڈیا پر آکر اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کی جماعت کے پیچھے ایک میجر جنرل کا ہاتھ ہے جس کا کل انھوں نے کھل کرنام بھی لیا اور ان پر الزامات بھی عائید کیے -اس پر شہباز شریف نے بھی میٍڈ یا کا ہی سہارا لیا – موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابقہ وزیراعظم عمران خان میں ٹوییٹرپرلفظی جنگ اور تکرار ہوئی -پہلے شہباز شریف نے ایک میجر جنرل کے حق میں بات کی اور عمران خان کے اس بیان کو مستردکیا اس پر عمران خان نے بھی جواب دیا – وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے آئی ایس آئی کے افسر جنرل فیصل نصیر کے حق میں ٹوئٹ کرنے پر عمران خان نے بھی جوابی ٹوئٹ کردیا ہے۔

 

اپنے ٹوئٹ میں عمران خان کا کہنا ہے کہ کیا شہبازشریف کی ٹویٹ کا مطلب یہ ہےکہ فوجی افسران قانون سےبالاتر ہیں یا وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتے؟ اگر ان میں سےکسی کےبارےمیں ہمارا خیال یہ ہےکہ اس نےکوئی جرم کیا ہے تواس سے ادارہ کیسے بدنام ہوتا ہے؟ انھوں نے شہباز شریف سے سوال کیا کون اتنا طاقتور تھاکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کےباوجود وزیرآباد جے آئی ٹی سبوتاژ کرسکتا؟ کیاشہبازشریف بتاسکتےہیں کہ 18مارچ کو میری پیشی سے پہلے والی شام ایک ادارے نےاسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر کیوں پوری طرح قبضہ کرلیا؟ آئی ایس آئی کے لوگوں نے سی ٹی ڈی اور وکلاء کا روپ کیوں دھار رکھا تھا؟وہ نامعلوم لوگ عدالت تک کیسے پہنچ گئے

 

 

انہوں نے کہا کہ بطور پاکستانی شہری کیا مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں جو میرے خیال کےمطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک ٹوئٹ کیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کے بغیر ثبوت کے جنرل فیصل نصیر اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دیگرافسران پر الزامات ناقابل برداشت نہیں، عمران نیازی کی معمولی سیاسی فائدے کیلئے قومی اداروں کو دھمکیاں انتہائی قابل مذمت ہیں، ان کوبغیر ثبوت کے الزامات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ان اعلیٰ اور بااثر شخصیات کا ٹکراؤ کسی طور بھی پاکستان کے لیے اچھا نہیں کیونکہ ملک پہلے ہی شدید مالی اور تنظیمی مسائل سے دوچار ہے –