عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو سپریم کورٹ بلایا تھا مگر جے یو آئی ایف نے سپریم کورٹ کی اس پیش کش کو مسترد کردیا -جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان نے میڈیا پر آکر سپریم کورٹ پر سخت تنقید کی -پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ عدالت ہے یا پنچائیت ؟ ماضی میں بندوق کے سامنے اور آج ہتھوڑے کے سامنے مذاکرات کروائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں رجیم چینج کا رجربہ اتنی بری طرح ناکام ہوا کہ 30 تیس سالوں سے سیاست کرنے والی جماعتوں کو ووٹ بینک بری طرح گرگیا جبکہ وعوام عمران خان کو نجات دہندہ سمجھنے لگی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں انتخابات ہی نہ ہوں -اسی لیے یہ اب عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے ہر طرح کے رسک لینے کو تیار ہیں –
 

 

 

پریس کانفرنس کرتےہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ عمران خان سے بات کریں، جس شخص کو اب تک نااہل ہو جانا چاہیے تھا سپریم کورٹ اس کو سیاست کا محور بنا رہی ہے، اسمبلی قانون پاس کر چکی ہے، عدالت کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کا احترام اور پیروی کرنا ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سے براہ راست کہتا ہوں آپ ہماری توہین کر رہے ہیں، ایک شخص کو تحفظ دینے کیلئے پوری قوم کو ذلیل کر رہے ہیں، عمران خان کو بات چیت کا اہل نہیں سمجھتے، ان کو ہم ملکی دائرے سے نکالنا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ اسے محور بنانا چاہتی ہے، آپ کا ہتھوڑا، جبر نہیں چلے گا۔انھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ممبران کو طلب کرسکتی ہے تو پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے ججز کو کیوں نہیں بلا سکتی -اب یہ ریت بدلنا پڑے گی – �تاہم حکومت کو کل عدالت کو جواب دینا ہے اس لیے آج ایک بار پھر شہباز شریف کی صدارت میں ایک اجلاس جاری ہے جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کے علاوہ آفتاب شیر پاؤ، خالد مقبول صدیقی، خالد مگسی، آغا حسن بلوچ، چوہدری سالک حسین، طارق بشیر چیمہ، ساجد میر اور حافظ عبدالکریم سمیت اہم رہنما شریک ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ، قمر زمان کائرہ، ایاز صادق، اسحاق ڈار اور اٹارنی جنرل بھی اجلاس میں موجود ہیں۔سوچا جارہا ہے کہ عدالت کے سامنے کس طرح اپنا مدعا بیان کیا جائے کیونکہ چیف جسٹس کی خوش دامن کی آڈیو منظر عام پر آنے کے بعد عدالت کا ری ایکشن بھی ہوسکتا ہے –