عمران خان کے لانگ مارچ کے حوالے سے عدلیہ کی اکثریت عمران خان کے لانگ مارچ کے حق میں دکھائی دیتی ہے اور چیف جسٹس سمیت 3 ججز کی رائے یہی ہے کہ عمران خان کے خلاف 25 مئی کو بنائے جانے والے کیس کو دوبارہ اٹھا کر توہین عدالت کا کیس چلانے سے ان پر انگلیاں اٹھیں گی -تین سماعتیں کرنے اور ایجنسیوں کی رپورٹس سمیت تمام متعلقہ مواد کا جائزہ لینے کے باوجود چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران اور پی ٹی آئی کے دو وکلا ڈاکٹر بابر اعوان اور چوہدری فیصل حسین سے اپنا جواب جمع کرانے کو کہا۔
https://twitter.com/VONPKofficial/status/1585236966957846531
بنچ نے نوٹ کیا کہ ان کا جواب اس حقیقت کا پتہ لگانے کے لیے ضروری تھا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے سپریم کورٹ کے 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔عمران اور ان کے حامیوں نے مبینہ طور پر ڈی چوک کی طرف اپنا راستہ اختیار کیا تھا، جس سے حکومت نے دارالحکومت کے ریڈ زون کی سیکیورٹی کے لیے فوج کو طلب کیا تھا۔یہ غیر معمولی بات تھی کہ ججوں نے کوئی حکم دینے سے پہلے کمرہ عدالت میں آپس میں کافی بحث کی۔واضح رہے کہ بنچ کے ارکان کی اس معاملے پر مختلف آراء تھیں۔جسٹس نقوی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری امیر رحمان سے یہاں تک پوچھا کہ حکومت کی توہین عدالت کی درخواست کیسے قابل سماعت ہے، جب یہ معاملہ بنچ پہلے ہی نبٹ چکا ہے۔
لانگ مارچ سے 46 گھنٹے قبل بڑی کوشش ناکام
سپریم کورٹ کی سماعت کے 61 منٹ کا مکمل احوال👇https://t.co/yGaZrNw8us
— Siddique Jan (@SdqJaan) October 26, 2022
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنی سابقہ رائے برقرار رکھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قبول کی جائے۔”ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ایجنسیوں/محکموں کے نامزد اہلکاروں سے رپورٹس طلب کرنے ملنے کے بعد میری رائے ہے کہ اس عدالت کے پاس عمران خان کے خلاف مبینہ طور پر کارروائی کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک بار پھر کہا عمران خان اور پی ٹی آئی دیگر ارکان کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کیئے جائیں ، مطیع اللہ جان https://t.co/G0an3u02Dr
— S-rehman (@rehman46043768) October 26, 2022
سپریم کورٹ کے جج نے اکثریتی ججوں کی رائے سے اختلاف کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی آزادانہ کارروائی شروع کرنے کے لیے عدالت کے سامنے کوئی قابل اعتبار مواد نہیں تھا، جس نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔