اسحاق ڈا ر کے وزیرخزانہ بننے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ شائید اب پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے مگر ہوا اس کے بالکل برعکس -نہ ڈالر کی پرواز میں کمی آئی نہ ہی پاکستان کو دنیا نے امداد دے کر معیشت کو سہارا دینے کی کوئی کوشش کی
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ 18 ارب ڈالر سے سکڑ کر صرف 7ارب ڈالر رہ گئےہیں – سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فاریکس ذخائر14 اکتوبر 2022 تک تقریباً7.6 بلین امریکی ڈالر یا موجودہ بیرونی ادائیگیوں کے تقریباً ایک ماہ کے تھے، جو اگست 2021 کے آخر کے ذخائر سے کئی گنا کم تھے۔پاکستان میں 1975 کے بعد سے یہ سب سے بری معاشی صورتحال ہے – عمران ریاض خان نے 3 روز قبل اپنے وی لاگ میں کہا تھا کہ پاکستان میں ڈیفالٹ ہونے کی شرح 19 فیصد سے بڑھ کر 81 فیصد تک پہنچ گئی ہے خد اکرے کہ یہ بات درست نہ ہو اللہ پاکستان اور اس ملک کی عوام کی حفاظت کرے – مگر اب اس کی تصدیق مالیاتی سروسز کی کمپنی” فچ ریٹنگز ” نے پاکستان کے لانگ ٹرم فارن کرنسی ایشوئر ڈیفالٹ ریٹنگ ( آئی ڈی آر) کو بی
موڈیز کی آوٹ لک ریٹنگ منفی ہونے کے بعد عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فِچ ریٹنگز نے بھی پاکستان کے آؤٹ لک کو مستحکم سے منفی کر دیا۔
امپورٹڈحکومت کی نااہلی ملکی معیشت کو تباہ کررہی ہے اگر بروقت انتخابات کرواکر ایک مضبوط حکومت قائم نہ کی گئی تو ملکی صورتحال خطرناک حد تک بگڑ سکتی ہے pic.twitter.com/hqSGMnosug
— Farid Malik (@StaunchInsafi) July 19, 2022
نیگٹو سے مزید کم کرکے سی سی سی پلس کرکے سچ ثابت کردی ، عمومی طورپر فچ کسی بھی خود مختار معیشت کو سی سی سی پلس یا اس سے نیچے کی ریٹنگ نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچ گیا ہے –
پاکستان کی ریٹنگ میں کمی کی بڑی وجوہات میں ریاست کے بیرونی ذخائر مین شدید کمی ، فنڈنگ کی صورتحال میں مزید بگاڑ اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ جزوی طور پر بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کا نتیجہ ہے جس سے کرنٹ اکاؤںٹ خسارے پر قابو پانے کی پاکستان کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔یاد رہے کہ جب اپریل میں عمران خان کی حکومت ختم کی گئی تھی تو پاکستان کے زرمبادلہ 18 ارب ڈالر تھے جو 6 ماہ میں گھٹ کر 7 بلین ڈالر تک آگئے ہیں