پاکستان ٹیم جس انداز میں کھیل رہی ہے یا جس انداز میں ٹیم سیلیکشن کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ میرٹ کا قتل عام ہوا ہے – پوری ٹیم 2 اوپنرز پر انحصار کرتی ہے اگر یہ دونوں چل جاتے ہین تو تٹم جیت جاتی ہے اور اگر ایک چلاے تو میچ پھنستاہے اور اگر دونوں ایک میچ میں فیل ہو جائیں تو پاکستان بری طرح ہار جاتا ہے اس بات کو اب پاکستان کے سابقہ کھلاڑی بھی محسوس کرنے لگے ہیں مگر یہ سلسلہ نیا نہیں ہے اس کی بڑی وجہ ان کھلاڑیوں کا خاموش رہنا ہے جو ٹیم میں کھیلنے کے حق دار ہوتے ہیں مگر انہیں ٹیم میں رکھا نہیں جاتا اس وقت عماد وسیم کو بولنا چاہئے کہ انہیں آل راؤنڈر ہونے کے باوجود ٹیم سکواڈ مین کیوں شامل نہیں کیا جاتا –

 

 

پاکستان کے سابق کپتان یونس خان نے سلیکٹرز کے اس بیان کو تنقید کاناشنہ بنایا کہ ہم ہر بار قومی سکواڈ میں تبدیلی کا رونا روتے ہیں، ہم اس سے قبل بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کر چکے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے خود کو اور پورے پاکستان کو شرمندہ نہ کرے کہ ہم دو دن پہلے اچانک تبدیلی کر دیں گے۔بابر اور رضوان کی اوپننگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یونس خان کا کہنا تھا کہ اب اس معاملے پر پی سی بی کو کام کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے ٹیم میں پہلے پرچیاں سیلیکٹ ہوجاتی ہیں پھر عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر لعن طعن ہوتی ہے تو پھر لڑکوں کو کھلیاجاتا ہے مگر اس وقت تک ٹورنامنٹ ہی ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔

 

آئندہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ پر بات کرتے ہوئے یونس خان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ایک ہی سٹائل سے کھیلتے رہے تو جو آسٹریلیا میں جاکر ہونا ہے اسے ہم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ وہان کی وکٹ میں باؤنس ہوتا ہے وکٹ پر گھاس بھی ہوتی ہے وہاں پر بیٹنگ کرنا آسان نہین ہوتا ، اس سے پہلے ہمیں کوئی ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے ہم کم ازکم ورلڈکپ کے فائنل تک پہنچ جائیں لیکن اس سے بعد سب کچھ قسمت کا گیم ہے کیونکہ فائنل میں اگر قسمت ساتھ دے تو آپ ورلڈ کپ کا فائنل بھی جیت سکتے ہیں۔