حکومی کی جانب سے جب بھی رعائت کی بات ہوتی ہے تو یا تو بالکل غریب عوام کو ریلیف ملتا ہے یا اشرافیہ کو -غریب کو حکومت 2 ہزاریا 12 ہزاریا یا بےنظیر کارڈ یا احساس کارڈ دیتی ہے اور امیروں کے تو اربوں کے قرضے تو خیر سے ہمیشہ ہی معاف ہوتے رہے ہیں اورحکومتی نظام چلانے کے لیے یہ ساری رقم ان لوگوں کی جیب سے نکالی جاتی ہے جو لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کہلاتا ہے جس کا بل 200 سے 300 یونٹ کے درمیان آتا ہے یہی طبقہ اپنی ساری کمائی اس ملک کے قرضے اتارنے ،سرکاری افسران کی تنخواہیں دینے ،ترقیاتی کام کرنے یا عمارات بنانے کے لیے ساری رقم اپنے ٹیکس سے ادا کرتا ہے -یہ طبقہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم نہیں دلا سکتا ،گھر نہیں بنا سکتا اور اچھے دنوں کی خواہش کرتے کرتے خود قبر میں اتر جاتا ہے خدارا اس طبقے پر بھی توجہ دو
وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعہ کے روز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر 200 یونٹس تک کے بجلی کے بلوں پر نظر ثانی کریں اور حکومت کی طرف سے اعلان کردہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارج کے تحت ریلیف کو ایڈجسٹ کریں۔بجلی صارفین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرنے والے وزیراعظم نے اس موضوع پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ تقسیم کار کمپنیوں کے عملہ بجلی کے بلوں پر نظرثانی کو یقینی بنانے کے لیے دن رات کام کریں۔انہوں نے متعلقہ حکام سے کہا کہ وہ تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں فوری طور پر تعمیل کی رپورٹ پیش کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ بینکوں کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ آنے والے دنوں میں کھلے رہیں تاکہ صارفین اپنے نظرثانی شدہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرسکیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ ریلیف پیکج پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ انہیں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت ریلیف فراہم کرنے کے لیے تقریباً 16.6 ملین کے بجلی کے بل درست کیے جا رہے ہیں۔وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی اقدامات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔