پانچ رکنی لارجر بنچ جس نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں اعلیٰ ترین عہدہ داروں بالخصوص وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف پراسیکیوشن اور انویسٹی گیشن کے کام میں مبینہ سیاسی مداخلت پر ازخود نوٹس لیا تھا ،نے وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں پراسیکیوٹر کے تبادلے سے متعلق کیس میں ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء عثمان گوندل کو بھی طلب کر لیا۔چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء کو معاونت کے لیے آنے دیں۔
بنچ نے وزیر اعظم کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی پیروی کرنے والے پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین کی برطرفی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا تاثر ہے کہ پراسیکیوٹر کو جاری ٹرائل کو روکنے کے لیے ہٹایا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ کارروائی کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی لیکن انہیں بھی نہیں روکنا چاہیے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر کی برطرفی کا جواز پیش کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم پر الزامات عائد کیے گئے ہیں؟بنچ نے سیکڑوں ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق کابینہ کے فیصلے پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس بندیال نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے ای سی ایل رولز 2010 کے سیکشن 2 کو پڑھنے کو کہا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز کے مطابق کرپشن کے ملزمان، ٹیکس نادہندگان، دہشت گردی کے ملزمان اور قرض نادہندہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے، ۔
جسٹس بندیال نے استفسار کیا کہ کس کی ہدایت پر کابینہ نے کرپشن اور ٹیکس ڈیفالٹ سے متعلق شقوں میں ترمیم کی؟ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ نے ان رولز کی منظوری دی؟جس پر اے جی پی اشتر اوصاف نے کہا کہ وہ کابینہ اجلاس کے منٹس بھی پیش کریں گے۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیئے کہ ان ترامیم سے کابینہ کے ارکان کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے ارکان اپنے مفاد کے لیے کیسے ترامیم کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کرپشن کیسز میں ملوث ملزمان کو نکالنے سے قبل نیب سے مشاورت نہیں کی گئی۔ جسٹس باقر نقوی نے پوچھا جب کابینہ کے ارکان کے نام خود ای سی ایل میں تھے تو کیا کابینہ کا رولز میں ترمیم کرنا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟ ۔بنچ نے مزید پوچھا کہ کیا وہ وزراء جو ای سی ایل کے حوالے سے تبدیل کیے جانے والے قواعد سے فائدہ اٹھانے والے تھے، وہ اس تبدیلی کا حصہ تھے۔اے جی پی نے کابینہ کے فیصلے سے متعلق تفصیلات دینے کے لیے وقت مانگا۔