سپریم کورٹ حکومت کی جانب سے آج عمران خان کے خلاف ایک کیس کی سماعت ہوئی درخواست میں التجا کی گئی تھی کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کی بجائے دیے گئے مقام کی جگہ ڈی چوک جانے کا اعلان کیا اس پر 5 رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیس کا حکم نامہ جاری کرینگے جو مستقبل کیلئے مثال ہو۔
چیف جسٹس کی زیر صدارت بینچ میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کل جو ہوا افسوس ناک ہے ، کل کے واقعے سے عدالت کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ٹوٹا ہے ، سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا حکم بھی دیاگیا تھا، موجودہ کیس میں ہم نے اپنی حد سے آگے جا کر حکم دیا۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نےگزشتہ روزکی سماعت کاحکم نامہ پڑھ کرسنایا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نےہدایات دیں کہ املاک کونقصان نہیں پہنچایاجائےگا، احتجاج پرامن ہوگا، پی ٹی آئی وکیل بابراعوان نےبھی پرامن احتجاج کی یقین دہانی کرائیتھی لیکن مختلف مقامات پر جلاؤ گھیراؤکیا گیا میٹرو بس سٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا گیا ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی گزشتہ کچھ عرصےمیں 33 جلسےکرچکی ہے ،ان کےتمام جلسےپرامن تھے، توقع ہےپی ٹی آئی کواپنی ذمہ داری کابھی احساس ہوگا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 31 پولیس اہلکارپتھراؤسےزخمی ہوئے، ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل سڑکوں پرصرفپاکستان تحریک انصاف کے کارکن تھے،لیڈرشپ نہیں تھی، سیاسی طاقت کےمظاہرےکوسیاسی قیادت ہی روک سکتی ہے،کارکنوں کوقیادت روک سکتی تھی جوموجودہی نہیں تھی،اسلام آباد میں گرین بیلٹس کو آنسوگیس سے بچنے کیلئے جلایا جا رہا تھا، ہجوم بہت چارجڈ تھا ، عام عوام بھی زخمی ہوئے ہونگے ، ممکن ہے عمران خان کو غلط بتایا گیا ہو ۔ہم اس سارےمعاملےپرفیصلہ کریں گے۔