انڈونیشیا کی ایک عدالت نے پیر کے روز ایک اسلامی اسکول میں 13 لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے جرم میں ایک استاد کو موت کی سزا سنائی، ۔ٹیچر ہیری ویراوان کے معاملے نے انڈونیشیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ملک کے مذہبی بورڈنگ اسکولوں میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے اور بچیوں کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی گئی ہے ۔
فروری میں بندونگ شہر کی ایک عدالت کی طرف سے استاد کوعمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد، سزائے موت کا مطالبہ کرنے والے استغاثہ نے اپیل دائر کیتھی جس پر آج یہ فیصلہ سنایا گیاہے ۔
بینڈونگ ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر پیر کو پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں جج نے کہا، عدالت اس کے ذریعے مدعا علیہ کو سزائے موت دینے کا حکم سناتی ہے ۔
ہیری کی وکیل ایرا مامبو نے عدالت سے مکمل فیصلہ دیکھنے تک اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ۔
مقامی پراسیکیوٹر کے دفتر کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ تبصرہ کرنے سے پہلے حتمی فیصلے کا انتظار کرے گا۔
فروری میں ایک جج نے کہا کہ 2016 اور 2021 کے درمیان، ہیری نے 13 لڑکیو جن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان تھیں، اور اس بدفعلی کے نتیجے میں 8 معصوم بچیاں حاملہ ہو گئی تھیں –
اس عصمت دری کی مزاہمت پر کئی طالبات زخمی بھی ہوئی تھیں ۔
انڈونیشیا کے حکام، بشمول ملک کے بچوں کے تحفظ کے وزیر نے بھی سزائے موت کے مطالبات کی حمایت کی تھی ۔
دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک میں ہزار وں اسلامی بورڈنگ اسکول اور دیگر مذہبی اسکول ہیں جو اکثر غریب خاندانوں کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا واحد راستہ فراہم کرتے ہیں۔