آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کور کمانڈر پشاور اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر “بالکل غلط” اور “جعلی” کہانی ہے-ان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی شو کاز جاری نہیں کیا گیا ۔ایک ’یوٹیوبر‘ نے اپنے تازہ ترین بلاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف نے چند روز قبل وزیراعظم سے ملاقات کرنے یا پی ایم ایل کیو کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو ٹیلی فون کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس نے تین مختلف ذرائع سے اپنی معلومات کی تصدیق اور کراس چیک کیا یہ خبر بالکل جھوٹی اور بے بنیاد ہے ۔
دیر جلسے کے حوالے سے، جنرل فیض کے کردار کے بارے میں بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس کی مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں سرکاری یا ٹھوس کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔حال ہی میں پی ایم ایل این کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جنرل فیض کا نام لیے بغیر ایک پریس بیان میں الزام لگایا تھا کہ حال ہی میں پشاور میں تعینات ایک اہم شخصیت نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے پی ایم ایل این کے کچھ ایم این ایز سے رابطہ کیا۔
اس معاملے پر جب میڈیا نمائندگان نے آئی ایس پی آر کے ڈی جی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اسے ’’قیاس آرائیاں‘‘ قرار دیا اور اس بات کا اظہار کیا کیا کہ یہ ادارہ نہ تو کسی سیاست میں ملوث ہے اور نہ ہی دفاعی افواج سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ایسا کرسکتا ہے، جو ان کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔مریم اورنگزیب کے بیان کے چند روز بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا پرسنز کے ایک گروپ کو بتایا کہ ’ادارہ‘ غیر جانبدار ہو گیا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ ادارے نے کی پریس ریلیز میں بیان کردہ انفرادی فعل کا نوٹس لیا ہے۔تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان سب کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی اور زور دیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اسے سیاست دانوں یا میڈیا کو نہیں گھسیٹا جانا چاہیے۔