سپریم کورٹ نے 2015 میں اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ایوان کے رکن کی حیثیت سے ان کی نشست ختم کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر جمعرات کو وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا۔صادق اکتوبر 2015 میں دوبارہ ایوان کے لیے منتخب ہوئے، اس کے چند ماہ بعد جب الیکشن ٹربیونل نے انہیں 2013 کے انتخابات کے دوران بے ضابطگیوں کے الزام میں این اے 122 لاہور سے رکن اسمبلی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا جس میں انہوں نے عمران خان کو شکست دی تھی،بائی الیکشن میں سردار ایاز صادق اور علیم خان میں کانٹے کا مقابلہ ہوا مگر اس بار بھی سردار ایاز صادق کامیاب تو ہوئے مگر ان کی جیت کافرق صرف 4000 رہ گیا تھا ۔
ٹربیونل نے پاکستان مسلم لیگ نوا ز کے رکن اسمبلی ایازصادق پر 25 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا جس کے بعد ایاز صادق نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دائر اپنی اپیل میں ایاز صادق نے کہا تھا کہ ٹربیونل کا کالعدم قرار دیا گیا حکم ،کیس کے حقائق اور انتخابی عمل سے متعلق قوانین کے منافی ہے۔تب سے درخواست زیر التوا تھی۔جمعرات کو تقریباً سات سال بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی اور وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا۔
سماعت کے دوران، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ کیس 2013 کے انتخابات سے متعلق ہے، ان انتخابات کی مدت 2018 میں ختم ہو گئی تھی۔ اس پر ایاز صادق کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔اس کے بعد عدالت نے ای سی پی اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران اٹھائے گئے اخراجات کی ادائیگی کی ہدایت کی۔