اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز حکومت کو حکم دیا کہ وہ حال ہی میں نافذ الیکٹرونک کرائمز (ترمیمی) ایکٹ 2022 کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریاں نہ کرے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 20 فروری کو پی ای سی اے، 2016 میں ترمیم کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا، جس میں آن لائن ہتک عزت کو ناقابل ضمانت، قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔ ترمیم کے بعد ایف آئی اے کو مزید اختیارات دیتے ہوئے تنزلی کی سزا بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی تھی۔
ایک روز قبل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے الیکڑانک کرائم ترمیمی آرڈیننس 2022 کے خلاف میں درخواست دائر کی تھی پی ایف یو جے کی پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو نوٹس جاری کیا اور اس آرڈیننس کے تحت لوگوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔
آج کی سماعت کے آغاز پر پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر اس آرڈیننس کو متعارف کرانے کے لیے 18 فروری کو ہونے والا قومی اسمبلی کا شیڈول اجلاس ملتوی کیا اس پر چیف جسٹس اسلام آبا د اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وہ کون سے حالات تھے جن کے سبب حکومت نے اتنی جلد بازی میں آرڈیننس جاری کیا؟ ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے متنبہ کیا کہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہوں گے۔
جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عوامی نمائندوں کے لیے ہتک عزت کا کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔
دریں اثناء عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے کیس میں معاونت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔