اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سے ایک ٹی وی شو میں وفاقی وزیر کے خلاف غیر اخلاقی تبصروں اور ہتک آمیز ریمارکس کسنے پراور تجزیہ کار محسن بیگ کو گرفتار کرنے کے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر استفسار کیا۔تاہم عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے کے خلاف محسن بیگ کے وکیل کی جانب سے دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی سماعت متعلقہ عدالت کرے گی جبکہ اس نے میڈیا شخصیت کو گرفتار کرنے کے اختیارات کے ناجائز استعمال پر ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈائریکٹر کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا۔
ایف آئی اے نے وزیر مواصلات مراد سعید کی درخواست پرمحسن بیگ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جب سابق ڈی جی نے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کے دوران مؤخر الذکر کے خلاف غیر اخلاقی اور تضحیک آمیز تبصرہ کیا تھا۔ پینلسٹ مرادسعید کی وزارت کو حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کا ایوارڈ ملنے پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔پروگرام کو حکومتی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور میڈیا ریگولیٹر کی جانب سے چینل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا گیا۔
بیگ کے وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے اہلکاروں کے مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔نیازی نے بنچ کو بتایا کہ محسن بیگ نے تھانے میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی اور اپنی گرفتاری کی سخت مزاحمت کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ان کے گھر میں غیر قانونی طور پر گھس آیا، تب بھی صحافی محسن بیگ نے قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیا، جسٹس من اللہ نے کہا، اس حوالے سے ان کا جو بھی دفاع ہے، اسے متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کرنا چاہیے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ایف آئی اے کے نمائندے کی عدم حاضری پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی اے ڈائریکٹر کون ہے؟ جسے آئین اور قانون کی حکمرانی کی کوئی پروا نہیں۔