کرناٹک میں تعلیمی اداروں کے حکام کی طرف سے طالب علموں کے حجاب کو زبردستی ہٹانے پرہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے، تدریسی عملہ بھی اس آزمائش سے محفوظ نہیں ہے۔ اس پس منظر میں، ایک خاتون پروفیسر نے حجاب اتارنے کے حکم کو حکم الٰہی کے منافی قرار دیتے ہوئے اپنی نوکری سے ہی انکار کردیا اس عظیم خاتون کا دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار دل کو گرمانے والی خبر کے طور پر سامنے آیا ہے۔یہ ٹمکور کالج کے انگلش ڈپارٹمنٹ کی ایک خاتون لیکچرار ہے جس نے کالج کے پرنسپل کے حکم پر عمل کرنے اور اپنا حجاب اتارنے کی بجائے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔چندنی نامی لیکچرر ٹمکور کے جین پری یونیورسٹی کالج میں انگریزی پڑھا رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ان کے استعفیٰ کے خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ تین سالوں سے کالج کے اندر حجاب پہن رہی تھیں۔
خاتون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ 3 سالوں سے حجاب میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہی تھی اور حجاب میں زیادہ پرسکون محفوظ کرتی تھی ادارے کو بھی ان کے حجاب پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اس نئے غیر اسلامی حکم نے مجھے اپنی نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا مسلمان اپنا رازق اور مالک اللہ تعالیٰ کو گردانتا ہے اور اسی سے رزق طلب کرتا ہے اسلیے میں نے حکم الہی پر عمل کیا اور اب میں پہلے سے زیادہ مطمئن ہوں دریں اثنا،بھارت کی ریاست میں مودی کے غنڈے ریاست کرناٹک کے دیگر مقامات پر کالج اور اسکول طلباء کو اپنے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے خواتین کو حجاب اتارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر کوئی لڑکی یا عورت یہ حکم ماننے سے انکار کرتی ہے تو اسے عمارت میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا بلکہ گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی کلپس وائرل ہوئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نہ صرف طالبات بلکہ اساتذہ کو بھی تعلیمی اداروں کے داخلی دروازے پر اپنے حجاب اتارنے پر مجبور کیے جانے کے دردناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں نے اگرچہ دکھی دل کی ساتھ اندراج حاصل کرنے کے لیے اس عوامی تذلیل کو سختی سے برداشت کیا اور اداروں میں داخل ہوتی رہیں مگر سلام ان خواتین کوہےجنھوں نے اس حکم کو ماننے سے صریحا انکار کردیا ، انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑنا قبول کرلیا رب پاک کی نافرمانی نہیں کی ۔
کالج انتظامیہ کرناٹک ہائی کورٹ کے کالجوں میں مذہبی لباس پر پابندی کے عبوری حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے اس طرح کے مکروہ اقدامات کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ عبوری حکم اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک عدالت کالجوں میں حجاب پر پابندی کے خلاف دائر درخواستوں پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سناتی۔تاہم، بہت سے لوگ یہ بتاتے ہیں کہ کالج اپنی حدودسے سے تجاوز کر رہے ہیں اور درحقیقت ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عبوری حکم ان کالجوں تک ہی محدود تھا جہاں ڈریس کوڈ مقرر ہے۔ کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے بھی ریاستی اسمبلی میں اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی۔مودی سرکار نے اپنی کرسی کے لیے بھارتی عوام میں وہ زہر بھر دیا ہے کہ اب اس سے چھٹکارا پانا خود بھارت کی لیے ناممکن ہوگیا ہے آر ایس ایس کے غنڈے آج تو مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں کل یہی بےلگام گھوڑے گلی گلی نگر نگر اپنی مرضی کریں گے تو بھارت میں وہ جرائم جنم لیں گے جو خود بھارت کی ریاست کے لیے خطرہ بن جائے گا اور بھارت کی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہوجائیں گے کیونکہ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے اس کا کوئی دین مزہب نہیں ہوتا وہ طاقت کے نشے میں چورہوتا ہے اور کوئی رشتہ ناطہ مزہب اس کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتا لیکن ایک مسکان کی ناں اب دھیرے دھیرے میں پورے بھارت میں پھیلنا شروع ہورہی ہے مسکان کے اللہ اکبر کی صدا نے بھارت کے مسلمانوں میں بےخوفی پیدا کردی ہے اور انھوں نے بھی سر اٹھاکر جینے کا فیصلہ کرلیا ہے اب امید ہے کہ مسلمان اللہ کے حکم کی تکمیل کے لیے کسی غیر اسلامی حکم کی تعمیل نہیں کریں گےاور جلد مودی سرکار کو بھی اس کا ادراک ہوجائے گا کہ مسلمان اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا