تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عمران خان کی سخت ہدایات کے بعد سابقہ دور حکومت میں ملک کا پیسہ لوٹنے والے کے خلاف آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہےاسی لیے کہا جارہا ہے کہ آیف آئی اے نے شہبازشریف کے خلاف “منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کھولنے میں ملوث ہونے” کے لیے “مضبوط کیس” تیار کر لیا ہے۔
ایف آئی اے نے اپنے چالان میں اسحٰق ڈار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف نے 1997 کی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے صدیقہ سید محفوظ ہاشم خادم کے نام پر بے نامی اکاؤنٹ کھولا تھا، جن کا تعلق بحرین سے تھا۔ایف آئی اے کے چالان میں کہا گیا کہ صدیقہ سید کے اکاونٹ میں 18 ملین ڈالر جمع کرائے گئے،اسحٰق ڈار کا اعترافی بیان پاناما جے آئی ٹی رپورٹ میں بطور ثبوت پیش کیا گیا۔کہا گیا کہ شہباز شریف بے نامی اکاؤنٹس کھولنے اور منی لانڈرنگ میں ملوث رہے اور اعترافی بیان کسی عدالتی فورم سے واپس نہیں لیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف منی لانڈرنگ ثابت کرنے کے لیے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حدیبیہ ملز کیس کو بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے۔مزید کہا گیا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن ثبوت کے طور پر پیش کرنے سے ثابت ہو جائے گا کہ مسلم لیگ ن کے صدر منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔
۔
گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال کردی تھی۔ای سی پی کے ایک بیان کے مطابق، کمیشن نے سپریم کورٹ کے 21 دسمبر 2021 کو ڈار کی رکنیت کی معطلی کے بارے میں اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، جس میں عدالت عظمیٰ نے ان کے خلاف دائر درخواست کو خارج کر دیا، اس طرح اس نے 9 مئی 2018 کو جاری کردہ حکم امتناعی کو خالی کر دیا۔ ای سی پی کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے حق میں نوٹیفکیشن۔