حکومت پاکستان نے مری کے ہوٹلوں میں ناجائز کرایہ بڑھانے والوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کرلیا اور ان کو مری میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 3 ہوٹلوں کو سیل کردیا
مری میں 7 جنوری کو برفانی طوفان کے دوران کاروں میں پھنس جانے کے بعد کم از کم 22 افراد سردی اور دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔
سیاحوں کے مطابق، ہوٹل مالکان نے رہائش کے چارجز کو جیک کیا، لوگوں کو اپنی گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور کیا۔ ہل سٹیشن کے تین ہوٹلوں کو پیر کو سیل کر دیا گیا جب کہ سوشل میڈیا پر لوگوں سے زائد کرایہ لینے کی پوسٹس وائرل ہو گئیں۔ حکام نے ہوٹلوں کے نام بتانے سے انکار کر دیا ہے۔
اتوار کو سماء ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سیاحوں نے بتایا کہ رہائش کے چارجز 6,000 روپے ($34) سے بڑھا کر 70,000 روپے فی کمرہ ($398) کر دیے گئے۔ کچھ سیاحوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں خوراک کی قیمتیں بھی آسمان کو چھوتی ہیں، خاص طور پر شدید موسمی حالات کے درمیان۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 روپے کے بسکٹ کا ایک پیکٹ 300 روپے میں فروخت ہوا، جب کہ ایک چھوٹی پانی کی بوتل 300 روپے تک زیادہ میں فروخت ہوئی۔
دوسری جانب پیر کو مری ڈسٹرکٹ پولیس اسٹیشن میں ہل اسٹیشن کے رہائشیوں کے خلاف جان بوجھ کر سڑکوں پر برف پھینکنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمین، نیلی جیپ میں سوار مردوں کے ایک گروپ نے بھوربن ہوٹل کے باہر جان بوجھ کر برف پھینکی۔ جب کوئی سیاحوں کی گاڑی رکتی، تو وہ مشتبہ افراد گاڑی کو کھینچنے کے لیے ان سے 4,000 سے 5,000 روپے وصول کرتے۔
صرف ہوٹل سیل کرنے سے فرق نہیں پڑے گا ان کے ہوتل کو حکومت تحویل میں لے اور مر جانے والے افراد کو حکومت جو کروڑوں روپیہ امداد کی مد میں دینے کا اردہ رکھتی ہے وہ بھی انہی ہوٹل مالکان سے وصول کیا جا ئے اور ان کو 14 سال قید کی سزا سنائی جائے کیونکہ یہ افراد براہ راست ان لوگوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں