لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صرف پہلی بیوی کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنے شوہر کی دوسری شادی کو چیلنج کر سکے باقی بیگمات کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا ۔
جسٹس محمد امجد رفیق نے یہ ریمارکس رواں ہفتے کے اوائل میں سماعت کے دوران دیے۔ ایک شخص نے بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرنے پر اپنے بہنوئی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ سماعت کے دوران جج نے کیس ختم کر دیا۔
غضنفر نوید کے خلاف 2011 اور 2013 میں الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے دوبارہ شادی کرنے کے لیے اجازت نامہ جعلی بنایا تھا جس پر اس کی پہلی بیوی کے دستخط ضروری تھے۔
نوید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دونوں شکایات میں مواد ایک جیسا ہے اور میاں بیوی سے متعلق معاملات فیملی کورٹس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ شکایت کنندہ کے وکلاء نے کہا کہ اس شخص نے “مبینہ جعلسازی” کی ہے۔
اپنے فیصلے میں جسٹس رفیق نے کہا کہ ایک کارروائی کے تحت دو ایف آئی آرز یا شکایت کنندہ قانون کے تحت جائز نہیں۔ ان کے ہر ورژن کو ایک ہی ایف آئی آر میں ڈالا جائے گا اور پرائیویٹ شکایت صرف اس صورت میں درج کی جا سکتی ہے جب پہلی دفعہ منسوخ ہو جائے۔
اس عدالت نے نوٹ کیا کہ پہلی بیوی نے ابھی تک اس شخص کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی تھی۔ پہلی بیوی، کارروائی شروع کرنے کے لیے لازمی فریق ہے اگر اسے شوہر کی شادی پر اعتراض نہ ہو ، تو کسی اور کا مقدمہ دائر کرنا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔”
جج نے نشاندہی کی کہ یہ معاملہ فیملی کورٹ کے لیے قابل سماعت ہے اور اس کے بعدعدالت نے دوسری ایف آئی آر کو بھی منسوخ کر دیا۔ جج نے مزید کہا کہ پہلی بیوی نوید کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے آزاد ہیں اگر وہ مقدمہ درج کرواتی ہیں تو عدالت ان کی بات سننے کو تیار ہے مگر تیسری یا چوتھی بیوی کی بات عدالت اس وقت تک نہیں سنے گی جب تک پہلی بیوی مقدمے میں فریق نہ بنے ۔