اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے درخواست کی سماعت شروع کر دی۔عدالتی نوٹس کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان چیف جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل آئی ایچ سی کے سنگل بنچ کے سامنے پیش ہوئے۔
متنازعہ کلپ کی سچائی کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے اے جی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے پاس بھیجنے کی تجویز دی۔انہوں نے کہا کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہے۔ چیف جسٹس نے بہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “آڈیو لیک پر کمیشن مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں جانا چاہیے،‘‘
اس کے لیے دو افراد نے درخواستیں جمع کروائی تھیں -ان دو درخواست گزاروں میں سے ایک ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد نے کہا کہ وفاقی کابینہ پہلے ہی آڈیو کلپ پر اپنا موقف دے چکی ہے۔جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ججز نہ تو سوشل میڈیا استعمال کریں اور نہ ہی کسی چیز کے زیر اثر آئیں۔
اطہر من االلہ اپنے طور سے عدلیہ کا وقار بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ان کا گزشتہ روز رانا شمیم سے مکالمہ بھی زبردست تھا اور وہ قانون کی حکمرانی بھی قائم کرنا چاہتے ہیں مگر جب تک عدلیہ سے طاقتور کا اثر ورسوخ ختم نہیں ہوتا سوشل میڈیا پر ججز کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں شدت آتی جائے گی جورانا شمیم جیسے سفارشی اور کرپٹ ججوں کا جینا محال کردے گی اور پھر وہ کیمرے سے منہ چھپاتے پھریں گے