جسٹس (ر) شمیم نے 10 نومبر کو مبینہ طور پر ریکارڈ کیے گئے حلف نامے میں دعویٰ کیا تھا کہ تین سال قبل اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نثار نے ماتحت عدلیہ کو نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی رہائی 2018 کے عام انتخابات تک مؤخر کرنے کا حکم دیا تھا۔ مبینہ حلف نامے کے مندرجات دی نیوز نے شائع کیے تھے۔
جسٹس (ر) شمیم پہلی بار آج آئی ایچ سی کے سامنے پیش ہوئے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ سماعت سے غیر حاضر تھے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ کیا رپورٹر، انصار عباسی نے ان کے ساتھ بیان حلفی کے مندرجات کی تصدیق کی ہے یا کیا اس نے پہلے ایسا حلف نامہ ریکارڈ کیا ہے۔جسٹس من اللہ نے کہا کہ ایک خبر نے ملک کے تمام ججوں کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
جسٹس (ر) شمیم نے عدالت کو بتایا کہ خبر کی اشاعت کے بعد رپورٹر نے انہیں بلایا تھا۔اس نے کہا کہ اس کا حلف نامہ ایک لفافے میں بند کر دیا گیا تھا جو اس کے خاندان کے پاس محفوظ تھا۔ انہوں نے کہا کہ “مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے لیک ہوا”۔تاہم سابق جج نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا حلف نامہ نہیں دیکھا۔
جسٹس شمیم نے کہا کہ مجھے دیکھنا پڑے گا کہ اس میں کیاتحریر تھا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ عجیب صورتحال ہے کہ ایک ایسے شخص کے بیان پر خبر شائع ہوئی جس کا کہنا ہے کہ انہیں چند روز قبل دیے بیان حلفی کا مواد یاد نہیں لیکن وہ تمام باتیں یاد ہیں جو تین سال پہلے کے واقعات بیان کرتی ہیں -یہ کوئی 10 سال پرانی دستاویز نہیں ہے جو انہیں یاد نہیں ہے ۔
اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ سے متعلق تنازعہ کی ذمہ داری اب جسٹس شمیم پر ڈال دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عدلیہ کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس شمیم کے بیان کے بعد اخبار کا کردار ثانوی اہمیت اختیار کر گیا اور سابق جج کے خلاف اصل کارروائی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی حقیقی حلف نامہ موجود نہیں تو ذمہ داری دی نیوز کے پبلشر جنگ گروپ پر ہوگی۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ جسٹس شمیم کے بیان نے چیزوں کو “پیچیدہ” بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ رانا صاحب آپ نے اس عدالت پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کی ساکھ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دی نیوز کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔