پاکستان میں چند ہی خواتین ایسی ہیں جنھوں نے اس وطن عزیز میں اپنا نام بنایا اور ان میں سے صرف چند ایک ایسی ہیں جنہوں نے کم عمری میں نام کمایا شہرت پائی اور پھر یہ دنیا چھوڑ گئیں ان میں ارفع کریم ،نازیہ حسن اور پروین شاکر ایسے نام ہیں جو زہنوں پر اپنے نقوش امرکرگئے لیجنڈ شاعرہ پروین شاکر کی 69ویں سالگرہ بدھ کو ملک بھر میں منائی جارہی ہے۔
پروین شاکر ایک لیجنڈ خاتون شاعرہ تھیں جنہوں نے بچپن میں ہی شاعری کا آغاز کیا۔ پروین شاکر پہلی خاتون شاعرہ تھیں جنہوں نے ایک نوجوان لڑکی کے جذبات اور احساسات کا حقیقت پسندانہ انداز میں اظہار کیا۔اظہار میں بے ساختگی ان کی شاعری کی خاصیت تھی جس نے نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کو بہت مسحور کر دیا۔
پروین شاکر نے چھوٹی عمر میں ہی لکھنا شروع کیا، نثر اور شاعری دونوں لکھنا شروع کیں، اور اردو اخبارات میں کالم اور انگریزی اخبارات میں کچھ مضامین لکھے۔وہ دو ماسٹر ڈگریوں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، ایک انگریزی ادب میں اور ایک لسانیات میں۔ اس نے بینک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی اور ایک اور ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
اس کا کام اکثر رومانویت پر مبنی تھا، محبت، خوبصورتی اور ان کے تضادات کے تصورات کو تلاش کرتا تھا، اور استعاروں، تشبیہوں اور شخصیتوں کے استعمال کو بہت زیادہ مربوط کرتا تھا۔ان کی شاعری کی مشہور کتابوں میں خوشبو، صد برگ، خدا کلامی اور انکار شامل ہیں۔
پروین شاکر نے اپنی شاعری خوشبو کی پہلی جلد شائع کی جس کی پاکستان بھر میں بہت پذیرائی ہوئی۔ انہیں ادب میں ان کی شاندار خدمات پر پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزاز پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا شاعری کی یہ کتابیں ماہ تمام (پورا چاند) میں جمع کی گئی ہیں۔ اس نے اپنے اخباری کالموں کا ایک مجموعہ بھی شائع کیا، جس کا عنوان تھا گوشہ چشم ، کاف عینا (آئینے کا کنارہ) ان کی ڈائریوں اور جرائد کے کاموں کے ساتھ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد شائع کیا گیا ۔
دسمبر 1994 کی 26 تاریخ کو پروین شاکر ایک کار حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کی موت کی خبر نے ہر دل کو زخمی کردیا پروین شاکر کی کار اس وقت ایک بس سے ٹکرا گئی جب وہ اسلام آباد میں کام پر جا رہی تھیں۔
۔اس حادثے کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی، جو اردو شاعری کی دنیا کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ جس سڑک پر یہ حادثہ ہوا وہ ان کے نام سے منسوب ہے۔