طالبان کے صوبائی پولیس سربراہ دام اللہ سراج نے صحافیوں کو بتایا کہ اس شخص کو پیر کو دیر گئے شمالی صوبہ جوزجان سے گرفتار کیا گیا۔
ہم ابھی بھی تحقیقات کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کیس کے بارے میں بعد میں مزید معلومات حاصل کریں گے،‘‘
جوزجان کے ایک ضلعی پولیس سربراہ محمد سردار مبارز نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ شخص غریب خواتین کو نشانہ بنا تا تھا جو غربت کے ہاتھون مجبور تھیں اور جو اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بے چین تھیں یہ شخص ان کو سبز خواب دکھا کر شادی کے لیے راضی کرلیتا تھا اور بعد میں انہیں فروخت کرکے دولت سمیٹتا تھا ۔
وہ انہیں یقین دلاتا تھا کہ اس کی بیوی کا شوہر امیر آدمی ہے اس کا ہر شہر میں کاروبار ہے اور وہ اس کو خوش رکھے گا اور اسے دنیا کی ہر آسائش فراہم کرے گا وہ انہیں دوسرے علاقے لے جانے کے لیے تیار کرتا ان کو سمجھاتا کہ ، وہ انہیں کسی دوسرے صوبے میں منتقل کر دے گا جہاںوپ بد بخ ان نئی نویکی دلہنوں کو دوسرے عیاش لوگوں کو بیچ دیتا تھا ۔
اس نے مبینہ طور پر تقریباً 130 خواتین کو اس طرح اپنی زوجیت میں لیا مزے اٹھائے اور چند روز بعد اسمگل کردیا۔
افغانستان میں جرائم، اقربا پروری اور بدعنوانی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن بڑھتی ہوئی غربت طالبان حکومت کے جائز ہونے کے دعوے کو کمزور کر رہی ہے۔
تقریباً تین ماہ قبل اقتدار میں واپسی کے بعد سے، طالبان بڑے شہروں میں ڈکیتیوں اور اغوا جیسے جرائم پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
منگل کے روز، طالبان کی وزارت داخلہ نے کہا کہ پاسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے ارکان سمیت 60 افراد کو پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے جعلی دستاویزات بنانے پر گرفتار کیا گیا۔
وزارت نے کہا کہ وہ کابل میں پاسپورٹ آفس کو دیکھ بھال کے لیے عارضی طور پر بند کر رہی ہے۔