صدر جو بائیڈن نے بدھ کو اعتراف کیا کہ امریکی خریدار روزمرہ کی اشیا کے لیے بہت زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں، حکومتی اعداد و شمار کےمطابق مہنگائی گزشتہ ماہ 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ رپورٹ کردہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں تیزی سے اضافہ نے ماہرین معاشیات اور وائٹ ہاؤس کو یکساں طور پر حیران کردیا
بائیڈن نے بالٹی مور کی بندرگاہ سے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں کہا، ’’آج کی معاشی رپورٹس بے روزگاری میں تو مسلسل کمی ہورہی ہے لیکن صارفین کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
بائیڈن نے مزید کہا ، ” بعض ریاستوں جیسے بالٹی مور میں ، ایک گیلن گیس سے لے کر روٹی تک ہر چیز کی قیمت زیادہ ہے۔”
“اگرچہ اجرت بڑھ رہی ہے، ہمیں اب بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہمیں ان سے نمٹنا ہے۔ ہر حال میں ان سے نمٹنا ہے۔”
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بائیڈن پیر کو دونوں فریقوں کے قانون سازوں کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کے پیکیج پر دستخط کریں گے ایک وہ جنہوں نے یہ معاہدہ لکھا اور تجویز کیا اور دوسرے جنہوں نے صدر کی میز تک اس کو پہنچایا ۔
حالیہ برسوں میں امریکی افراط زر خاموش رہا، لیکن 2021 میں انتقام کے ساتھ گرجنے لگا کیونکہ امریکی کاروباروں نے کووڈ 19 ویکسینز کی مدد سے معمول کے کام دوبارہ شروع کر دیے۔
امریکی کارکنوں کی کمی اور دنیا بھر میں سپلائی چینز میں کمی کے ساتھ صارفین کی طرف سے زیادہ مانگ کی وجہ سے قیمتوں پر دباؤ بڑھ گیا جس نے سیمی کنڈکٹرز جیسے اہم اجزاء کی فراہمی کو سست کر دیا۔
جب کہ بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ اضافہ عارضی ثابت ہوگا، انہوں نے اپنے مخالفین کو ان اخراجات کے منصوبوں کا ایک مضبوط جواب دیا ہے جس پر انہوں نے اپنی منظوری کی درجہ بندی میں کمی کے بعد اپنی صدارت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
امریکہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا کیونکہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تحریک انصاف کے لیے مسائل کا پہاڑ کھڑا کردیا ہے