پاکستانی حکومت نی اپنے سخت ردعمل کے بعد ایک بار پھر تحریک لبیک کے ساتھ مزاکرات کا راؤنڈ شروع کردیا ہے اس سے قبل 5 بےگناہ پولیس اہل کاروں کی شہادت کے بعد وزیرداخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مظاہرین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان پر بھرپور کریک ڈاؤن کی دھمکی دی تھی مگر اب اوریا مقبول جان کے ذریعے سے ایک بار پھر مزاکرات کا دور شروع کیا گیا ہے جس کا اظہار اوریا مقبول نے کیا
وہ جمعرات کی شب سماء ٹی وی پر ندیم ملک سے گفتگو کر رہے تھے۔ ندیم ملک نے پوچھا کہ کیا اوریا مقبول کو ٹی ایل پی کے ساتھ اعتماد کی کمی پر حکومت کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کو کہا گیا ہے۔
اوریا مقبول جان نے جواب دیا کہ وزیراعظم عمران خان نے اعجاز چوہدری کی موجودگی میںان سے مدد کرنے کو کہا تھا۔ جمعرات کو حالات خراب ہونے کے بعد ان سے دوسری بار پوچھا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے ساڑھے نو بجے کے بعد شوریٰ سے ملاقات کی۔
اوریا مقبول جان نے کہا کہ “انہوں نے کہا کہ فرانسیسی سفیر کا مسئلہ حل ہو گیا ہے کیونکہ خادم حسین رضوی نے خود ایک معاہدہ کیا تھا کہ قرارداد پارلیمنٹ میں منظور کی جائے گی۔” ٹی ایل پی نے انہیں بتایا کہ وہ اس معاملے کو دوبارہ نہیں اٹھانا چاہتی۔ فی الحال اس کے مطالبات مختلف تھے۔
ٹی ایل پی چاہتی تھی کہ سعد رضوی اور دیگر کو رہا کیا جائے، ان کے نام فورتھ شیڈول سے نکالے جائیں۔ اس کی خواہش تھی کہ ٹی ایل پی پر سے پابندی ختم کی جائے اور ان کے خلاف مقدمات ختم کیے جائیں۔
اوریا مقبول جان نے ندیم ملک کو بتایا کہ انہوں نے ٹی ایل پی کو بتایا کہ پہلے دو مطالبات قابل قبول ہیں لیکن تیسرا عدالتوں سے متعلق ہے اور اس کا اپنا مناسب عمل اور وقت لگے گا۔
پھر اوریا مقبول جیل روڈ پر اعجاز چوہدری سے ملنے گئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دفتر میں پی ٹی آئی کا جلسہ کر رہے تھے، وہ باہر آئے اور میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور میرے سامنے عمران خان کو دو مطالبات میسج کے ذریعے بھیجے۔
اوریا مقبول نے انتظار کیا کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم اگلے دن ملاقاتیں کریں گے۔ اوریا مقبول نے کہا، “جب خان صاحب نے اپنی میٹنگیں شروع کیں تو ٹی ایل پی والوں نے مجھے کہنا شروع کر دیا، ‘ہمیں جمعہ کے بعد مارچ کرنے کی ضرورت ہے، براہ کرم وزیر اعظم سے کہیں کہ وہ ایک کمیٹی کا اعلان کریں تاکہ ہم مارچ کو ملتوی کر سکیں،’ اوریا مقبول نے کہا۔ “مجھے ان کی طرف سے 19 فون کالز آئیں۔ تقریباً 1 بجے مجھے آخری کال آئی، کہ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو الوداع”۔
اوریا مقبول کا کہنا تھا کہ معاملات طے پاگئے ہیں لیکن چند بیوروکریٹس نے پھر حکومتی رٹ کی بات شروع کردی جس سے کاموں میں بھونچال آگیا۔ پھر حکومت بیک فٹ پر چلی گئی اور بالآخر سعد رضوی کو راولپنڈی منتقل کرنا پڑا، شوریٰ کے پانچ ارکان سے بات کرنی پڑی اور ٹی ایل پی کے 300 افراد کو رہا کرنا پڑا۔
اس سے ایک دن پہلے مفتی منیب الرحمان نے بھی یہی دعویٰ کیا تھا کہ ٹی ایل پی نے اس بار فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا نہیں کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید اور فواد چوہدری حکومت کی طرف سے مسلسل کہہ رہے تھے کہ یہ مطالبہ تھا لیکن ایسا کوئی مطالبہ ہماری جانب سے نہیں ہوا۔