طالبان کے وزیر دفاع اور مرحوم طالبان لیڈر ملا عمر کے بیٹے نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد نئی آنے والی طالبان حکومت کے ہاتھوں تقریبا 20 افراد کی جان لی گئی ہے انھوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ عام معافی کے اعلان کے بعد کسی بھی جنگجو کا قانون ہاتھ میں لینا ناقبل قبول ہے اور آئیندہ ایسی ہلاکتوں کی کسی طور اجازت نہیں دی جائے گی ۔
طالبان کے ترجمان اور نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جمعرات کو ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے والے اس آڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’حال ہی میں کچھ واقعات ہوئے ہیں جن میں غیر ذمہ داری سے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔ دو یا تین لوگ مارے گئے ہیں۔‘
ملا یعقوب کا کہنا تھا کہ ’اسلامی امارات نے تمام فوجیوں، بدترین مخالفین، ہمیں شہید اور ہراساں کرنے والے لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور مجاہدین میں کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کریں اور انتقامی کارروائی کریں۔‘تاہم افغان وزیرِ دفاع کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان واقعات میں ملوث طالبان جنگجوؤں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔
ایک 15 منٹ کے آڈیو کلپ میں ملا یعقوب نے طالبان جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ طالبان قیادت سے وفاداری دکھائیں۔ ’اگر کوئی اپنے چھوٹے سے ذہن میں کسی خیال کی بنا پر نظام کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو درحقیقت یہ شخص اس نظام یا اس کے مقاصد کا وفادار نہیں۔‘ملا یعقوب کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب عالمی خبر رساں اداروں نے اپنی تحقیقات میں دعویٰ کیا کہ طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے بعض شہریوں اور فوجیوں کو قتل کیا۔
رواں ماہ 13 ستمبر کو بی بی سی نے خبر جاری کی تھی کہ طالبان اور قومی مزاحمتی محاذ کے درمیان ہونے والی لڑائی کا مرکز رہنے والے افغانستان میں کم از کم 20 شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔تاہم اس کے بعد سے آج تک اس طرح کے واقعات میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی ہے اور اب افغانستان امن کی جانب بڑھ رہا ہے