چھبیس اگست کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر کسی قوم کے بچے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کریں تو وہ قوم جلدی ترقی کرتی ہے۔ اس پر پنجابی دانشوروں ، شاعروں اور فنکاروں نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ زخم کو کھرچ کر صاف کیا ہے اور یہ بات سر عام دہرائی ہے کہ جس طرح دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح پنجابیوں کو بھی یہ حق دیا جائے کہ انکا ہر بچہ پنجابی زبان میں تعلیم حاصل کرے۔

Punjabi culture « Uddari Weblog
Image Source: Uddari Weblog

دنیا میں ظلم کی ایسی چھری کسی قوم پر نہیں چلی جیسی پنجابیوں کے گلے پر چلی۔ انگریز جب اس خطے میں آیا تو اسے سب سے زیادہ خوف پنجابیوں سے تھا۔ کیونکہ پنجاب میں شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ پنجاب میں وارث شاہ جیسا جینئس یعنی انتہائی غیر معمولی شاعر ہو گزرا تھا۔ اور اس سے پہلے سلطان باہوؒ، شاہ حسینؒ، اور بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا علم اس دھرتی کو سیراب کر چکا تھا۔ ایسے میں پنجابیوں کا شعور نمو پاتا ہوا اس مقام پر آ گیا تھا کہ آپسی معاملات کو طے کرنے کے لیے بھی بادشاہ کی ضرورت کے بغیرپنجاب کے “جھیڑے جھگڑے” پنچائیتوں میں سلجھا لیے جاتے تھے۔ پنجاب کے لوگ عاقل تھے اور معاملہ فہمی میں اور علم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ انگریز نے اعلان کروایا کہ جو شخص ہتھیار لا کر جمع کروائے گا اسے ایک روپیہ اور جو شخص پنجابی کتاب لا کر جمع کروائے گا اسے تین روپے دئیے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد بہت سے لوگوں نے پیٹ کی خاطر پنجابی کتابوں کے نایاب نسخے انگریز سرکار کو دے دئیے جس کے بعد انگریز سرکار نے وہ ساری کتابیں جلا دیں اور جب ٹھیک پچیس سال بعد شرح خواندگی کا اندازہ لگایا گیا تو اس میں پریشان کن حد تک کمی آ چکی تھی۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انگریز سرکار نے اس خطے کے لوگوں کو انکی زبان سے دور کیا اور انہیں انگریزی کا غلام بنا دیا۔

Why have we forgotten the long lost glory of the Punjabi language?
Image Source: The Express Tribune

اب یہی غلامی برسر اقتدار پنجابیوں کو انگریزی کے گرداب میں پھنسائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے وہ پنجابی کے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ اور ہمیشہ یہ کام شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں نے ہی کیا ہے۔ پنجابی زبان پنجابیوں کی ماں ہے اور جو لوگ ماں گے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہ ہی اس کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ شاعر ادیب زبان کے رکھوالے ہوتے ہیں اور زبان کو لاگو کروانے کے لیے یہی طبقہ ہمیشہ سب سے زیادہ کوشاں رہا ہے۔ لیکن سرکار نے کبھی اس مسئلے کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔

پنجابی تے پنجابیت لئی ریلی تے احتجاج ۔۔۔۔٭رویل کالم٭
Image Source: رویل

پنجابی زبان دنیا کی پرانی ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ پنجابی ہمارے خطے کی سب سے بڑی زبان ہے۔ حتی کہ فارسی زبان میں 300 مصدر ہیں لیکن پنجابی زبان میں 2000 مصدر ہیں۔ اختصار میں بھی پنجابی زبان فارسی سے بڑھ کر ہے۔ پنجابی زبان میں دو حرفی لفظ بہت زیادہ ہیں۔ جیسا کہ اردو میں تین جبکہ پنجابی میں تن، اردو میں کان جبکہ پنجابی میں کن، اردو میں عورت جبکہ پنجابی میں رن، اردو میں آنکھ جبکہ پنجابی میں اکھ بولا جاتا ہے۔

یہ تو صرف چند مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ زبان دیکھنی ہے تو وارث شاہ کی “ہیر” پنجاب کا انسائکلو پیڈیا ہے۔ “ہیر وارث شاہ” زبان، تہذیب، اور انسانی سائیکالوجی کے علم کا بہترین نمونہ ہے۔

وارث شاہ کا مزار جنڈیالہ شیر خاں میں

ان ساری باتوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پنجابی زبان اتنی وسعت رکھتی ہے کہ دنیا کا ہر علم اس میں ترجمہ کر کے پڑھا پڑھایا جا سکتا ہے۔ لہذا پنجابی زبان کے حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہییں۔ پنجابی زبان گنواروں کی زبان نہیں بلکہ یہ زبان ہمیشہ سے پڑھے لکھے لوگوں کی زبان رہی ہے اور آج بھی پڑھے لکھے سمجھدار لوگ ہی اسے بولتے ہیں، باقی لوگ تو کمپلیکس کا شکار ہیں۔ جس شخص کو زبان کی اہمیت کا پتہ ہو وہی اس زبان کو پڑھے گا، سمجھے گا اور اگلی نسلوں کو سکھائے گا۔

پنجاب دے لوک ناچ - Wikiwand
Image Source: Wikiwand